درد ہو تو دوا کرے کوئی

Poet: ریاضؔ خیرآبادی By: محمد رضوان, Multan

درد ہو تو دوا کرے کوئی
موت ہی ہو تو کیا کرے کوئی

نہ ستائے کوئی انہیں شب وصل
ان کی باتیں سنا کرے کوئی

بند ہوتا ہے اب در توبہ
در مے خانہ وا کرے کوئی

قبر میں آ کے نیند آئی ہے
نہ اٹھائے خدا کرے کوئی

تھیں یہ دنیا کی باتیں دنیا تک
حشر میں کیا گلا کرے کوئی

نہ اٹھی جب جھکی جبین نیاز
کس طرح التجا کرے کوئی

بوسہ لیں غیر دیں سزا ہم کو
ہم ہیں مجرم خطا کرے کوئی

بگڑے گیسو تو بولے جھنجھلا کر
نہ بلائیں لیا کرے کوئی

نزع میں کیا ستم کا موقع ہے
وقت ہے اب دعا کرے کوئی

حشر کے دن کی رات ہو کہ نہ ہو
اپنا وعدہ وفا کرے کوئی

نہ ستائے کوئی کسی کو ریاضؔ
نہ ستم کا گلا کرے کوئی

Rate it:
Views: 536
02 Feb, 2022