درد ہو تو دوا کرے کوئی
موت ہی ہو تو کیا کرے کوئی
نہ ستائے کوئی انہیں شب وصل
ان کی باتیں سنا کرے کوئی
بند ہوتا ہے اب در توبہ
در مے خانہ وا کرے کوئی
قبر میں آ کے نیند آئی ہے
نہ اٹھائے خدا کرے کوئی
تھیں یہ دنیا کی باتیں دنیا تک
حشر میں کیا گلا کرے کوئی
نہ اٹھی جب جھکی جبین نیاز
کس طرح التجا کرے کوئی
بوسہ لیں غیر دیں سزا ہم کو
ہم ہیں مجرم خطا کرے کوئی
بگڑے گیسو تو بولے جھنجھلا کر
نہ بلائیں لیا کرے کوئی
نزع میں کیا ستم کا موقع ہے
وقت ہے اب دعا کرے کوئی
حشر کے دن کی رات ہو کہ نہ ہو
اپنا وعدہ وفا کرے کوئی
نہ ستائے کوئی کسی کو ریاضؔ
نہ ستم کا گلا کرے کوئی