دردِ ہجراں کے یہ لمحات سزا دیتے ہیں
چشم کے بحر سے ہم پانی گرا دیتے ہیں
راز تھی بات مگر تم کو بتا دیتے ہیں
جل کے جذبات بھی انساں کو جلا دیتے ہیں
مل کے معصوم نگاہوں سے زمانے والو
زخم ہر بار حسیں لوگ نیا دیتے ہیں
حال کچھ ایسا ہے ان تیرہ شبوں میں اپنا
تجھ میں کھو جاتے ہیں اور خود کو بھلا دیتے ہیں
خود بھی جل جاتے ہیں کچھ آگ لگانے والے
وہ تو پاگل ہیں جو شعلوں کو ہوا دیتے ہیں
شدتِ کرب سے بھٹکے ہوئے کچھ دیوانے
عقلِ انسانی کے طائر بھی اڑا دیتے ہیں
اکثریت میں نظر آتے ہیں پچھتاتے ہی
وقت ہاتھوں سے جو اک بار گنوا دیتے ہیں
جب سے احساس نے امیدیں جگائیں ضیغم
غم تھپکتے ہیں انہیں اور سلا دیتے ہیں