دریا گزر گئے ہیں سمندر نہیں ملا
پیاسی رہی میں کتنی سکندر نہیں ملا
اس جیسا دوسرا نہ سمایا نگاہ میں
کتنے حسین آنکھوں سے پیکر نہیں ملا
کچھ تیر میرے سینے میں پیوست ہو گئے
کچھ تیر میرے سینے سے خنجر نہیں ملا
آنسو بیان کرنے سے قاصر رہے جنہیں
کیا کیا نہ زخم کا یہ ستمگر نہیں ملا
اک چوٹ دل پہ لگتی رہی ہے تمام شب
دل کی زمیں سے یادوں کا لشکر نہیں ملا
وہ ضبط تھا کہ آہ نہ نکلی زبان سے
دل پہ ہمارے کتنے ہی منظر نہیں ملا
وشمہ اس آفتاب میں جوہر ہے اس قدر
جس نے کسی کو اپنا بھی دلبر نہیں ملا