وہ اپنے گھر کے دریچوں سے جھانکتا کم ہے
تعلقات تو اب بھی ہیں رابطہ کم ہے
تم اس خاموش طعبیت پے طنز مت کرنا
وہ سوچتا ہے بہت اور بولتا کم ہے
بلا سبب ہی تم تو اداس رہتے ہو
تمہارے گھر سے تو مسجد کا فاصلہ کم ہے
فضول تیز ہواؤں کو دوش دیتا ہے
اسے ہی چراغ جالانے کا حوصلہ کم ہے
میں اپنے بچوں کی خاطر ہی جان دے دیتا
مگر غریب کی جان معاوضہ کم ہے