دسمبر کی آخری شب ہے
ستارے گو مگو حالت میں
یونہی بات کرتے ہیں
پتا کیا بات کرتے ہیں
تیرے شیریں، شرر لہجے کا
موضوع عام کرتے ہیں
آنکھوں کے پیالے میں
جب سرخ جام بھرتے ہیں
تو مطلب یہ ہوا کہ ہم بھی
تم کو یاد کرتے ہیں
ادائے بے نیازی ہے، تغافل ہے، عداوت بھی
تو لو جاناں ہم اپنا آپ
تمھارے نام کرتے ہیں
یوں رسوائیوں کا ڈر ہمیں تو مار ڈالے گا
لے تیرے نام پہ مر کے
اختتام شام کرتے ہیں