دسمبر کی تنہا شام میں
تیری یاد کا دیا جب جلتا ہے
تو دل کے آنگن میں
اک روشن سماں سا بندھ جاتا ہے
دسمبر کی تنہا شام میں
تیرے لمس کا احساس جو چھُو کر گزرتا ہے
تو سُونی آنکھوں میں
تیرا عکس سا چھلک جاتا ہے
دسمبر کی تنہا شام میں
من اُداسی کی کالی چادر جب اوڑھتا ہے
تو ویران دامن میں
یادوں کا اک دریچہ سا کھُل جاتا ہے
دسمبر کی تنہا شام میں
مدھم سا بھی لب جب جنبش کرتا ہے
تو پلکوں کے گوشوں میں
کئی دُھندلی یادوں کا پہرا سرسراتا ہے
دسمبر کی تنہا شام میں
دسمبر کی تنہا شام میں