میری دھرتی بھی ، آسماں ہے مرا
ایک تو ہی تو اب جہاں ہے مرا
تیری یادیں ہی میرا مسکن ہیں
تیری خواہش ہی اک مکاں ہے مرا
پہلے ویسے ہی تم پہ مرتی تھی
جوش و جذبہ تو اب جواں ہے مرا
کیوں نکالا ہے اپنی محفل سے
تیرا دل ہی تو آستاں ہے مرا
میں جو نکلی چمن سے تب دیکھا
دشت وحشت بھی رازداں ہے مرا
جب سے تیری میں ہو گئی وشمہ
میرا جیون بھی اب کہاں ہے مرا