دشت وحشت سے دل تو عاری ہے
خوف ہجرت کا مجھ پہ طاری ہے
اس نے جیتی ہے جنگ باتوں سے
جس کے لہجے میں انکساری ہے
ایک دن تو میں ڈھونڈ لوں گی اسے
میرا خوابوں میں گشت جاری ہے
کیا ملیں گے وفاؤں کے نمبر
دل کا پرچہ تو اختیاری ہے
اس کی جھوٹی انا ہے کیا وشمہ
میرا ہر عزم اس پہ بھاری ہے