حادثے لاکھ سہے، دُکھ بے حساب دیکھے
دشت ِ اُلفت میں وفاؤں کے سراب دیکھے
کس طرح توڑا ہے مجھے شوق ِ جنوں نے
آ کر وہ کبھی میرے دل کی کتاب دیکھے
کس قدر پستی بھری ہے یہاں سوچوں میں
صبح ِنور میں بے نور ماہ و شہاب دیکھے
یہی سوچ کر زخموں کر ہرا رکھا ہے آج تک
وہ اپنے ظلم دیکھے، میرے اعصاب دیکھے
وہ لوگ جو محبت کا دم بھرتے تھے ہر لہذہ
جب بات وفاؤں کی چلی، لاجواب دیکھے
اُسے فرصت ملے اگر نور کے ہالوں سے
اُتر کر نیچے کبھی تیَرگی کے عذاب دیکھے
آزمائشوں سے کیا گلہ، دکھ تو یہ ہے کہ
تا عمر نا کردہ گناہوں کے ثواب دیکھے
یہ ابر ِساون تو کچھ بھی نہیں ہے وہ میری
بھیگی ہوئی آنکھوںسےرواں سیلاب دیکھے
ساحل پہ کھڑا ہو کر لہروں کو للکارنےوالا
اب کہ سمندر میں اُتر کر لطف ِگرداب دیکھے
جِن کا فکروسخن سے کوئی تعلق ہی نہیں
بزم ِسُخن میں ایسے کئی اصحاب دیکھے
میں رستوں کی سازش سمجھتاتوملتی منزل
زندگی میں ہر موڑ پہ نئے نئے باب دیکھے
خوں کی طرح میری نبض میں رواں ہے جو
اتُر کر دل میں،جذبوں کی آب و تاب دیکھے
حرف ِوفا کا تذکرہ بھی نہیں پایا ہے کہیں
اس عمر ِرواں میں جتنے بھی نصاب دیکھے
میں تو اُسی میں گم ہو کر، خودی بھول چُکا
اُس کو گلہ ہے اگر، تو میرے اِنتساب دیکھے
دل تو اُسکا بھی رضا لرز جائے اک بار اگر
سر ِمحفل میری آنکھوں کو پرُ آب دیکھے