دعویٰ عشق کرے مجھ سے، مگر پیار نہیں
یار ہے میرا، مگر میرا طرفدار نہیں
میں نے اشکوں سے وفاؤں کی لگائی قیمت
میں محبت ہوں، محبت کا خریدار نہیں
میں پجاری ہوں نہ معبد کی تمنا ہے مجھے
میں کسی بت کی محبت میں گرفتار نہیں
جانتا ہوں کہ ابھی دھوپ میں جلنا ہے مجھے
میرے رستے میں کوئی سایہ دیوار نہیں
خار دامن میں لئیے شوق سے آ سکتے ہو
اب یہاں کوئی بھی پھولوں کا پرستار نہیں
وہ مجھے چھوڑ کے جاتا ہے تو جائے ساجد
کیا کروں آج میں اپنا بھی طلبگار نہیں