دعویٰ بندہ پروری دیکھو
Poet: By: Wasim Ahmad Moghal, Lahoreدعوٰی ءِ بندہ پروری دیکھو
اور پھر میری زندگی دیکھو
اِن بتوں نے ہے پایا کس نے فیض
عاشقوں کی بھی سادگی دیکھو
میری حالت پہ غور کر لینا
زیرِ لب اُس کی جب ہنسی دیکھو
کلفتیں اور بڑھ گئیں دل کی
مرے دلبر کی دلبری دیکھو
اِس کے اندر بھی ایک دنیا ہے
دل مرا یوں نہ سر سری دیکھو
دل ہی دیکھو نہ ڈوبتا میرا
میری نبضیں بھی ڈوبتی دیکھو
ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے
دیکھنا ہے تو پھر ابھی دیکھو
سانس روکے ہوئے کھڑے ہی رہو
ٹوٹ جائے نہ خامشی دیکھو
چھپ کے بیٹھا ہوں دشمنوں سے میں
ایک نعمت ہے تیرگی دیکھو
اپنے طرزِ عمل پہ غور کرو
اِس کو کہتے ہو دوستی دیکھو
سب بجا ہیں شکایتیں تیری
جاناں اپنی بھی بے رُخی دیکھو
مدتوں بارہا اسے دیکھا
پھر بھی باقی ہے دلکشی دیکھو
میں تہی دست ہوں تو پھر کیا ہے
ساقیا میری تشنگی دیکھو
سب عزیزوں نے ساتھ چھوڑ دیا
جب سے آئی ہے مفلسی دیکھو
دوست احباب جب نہیں ہوتے
میں نہیں کرتا مے کشی دیکھو
لگ نہ جائے تمہیں بھی دل کی لگی
تم جو کرتے ہو دل لگی دیکھو
کسی پہلو نہیں قرار اِسے
رہ گئی دل میں کیا کمی دیکھو
کلی دل کی تو ایک بھی نہ کھلی
رہ گئی دل میں بے کلی دیکھو
بارہا جس کو دل میں دہرایا
رہ گئی وہ ہی اَن کہی دیکھو
اُٹھ کے جانا تمہارا پہلو سے
عین ممکن ہے پھر سے لوٹ آؤں
اک نظر اس طرف کبھی دیکھو
یہ قیامت کی ہے گھڑی دیکھو
آپ کا ساتھ جب نہیں ہوتا
جی جلاتی ہے چاندنی دیکھو
چاند تکتا ہے رات بھر جس کو
یاد آتی ہے وہ گلی دیکھو
اب تو اُٹھ جاؤ اُس کے رستے سے
گرد چہرے پہ ہے جمی دیکھو
چھوڑ دو اِن فضول باتوں کو
دوستو آؤ چاندنی دیکھو
تم تو اپنی ہی کہہ رہے ہو وسیم
اُس کی آنکھوں میں ہے نمی دیکھو
راہِ نیکی میں تو سچے لوگ بھی ٹوٹ جاتے ہیں
دوست جو ساتھ تھے کبھی نڈر ہمارے اے میاں
وقت کے ساتھ وہ سبھی ہم سے اب چھوٹ جاتے ہیں
ہم چھپائیں کس طرح سے اب محبت کا اثر
دل کے گوشوں سے وہ جذبے خود ہی اب پھوٹ جاتے ہیں
کچھ جو خوابوں کے نگر میں لوگ تھے نکھرے ہوئے
ہو کے بکھرے وہ ہوا کے ساتھ ہی لوٹ جاتے ہیں
جو کیے تھے ہم نے دل کے اس سفر میں وعدے سب
وقت کی قید میں وہ سارے ہم سے اب روٹھ جاتے ہیں
پھول کی خوش بو کی صورت تھی ہماری یہ وفا
یاد کے عالم میں اب وہ سب ہی بس چھوٹ جاتے ہیں
مظہرؔ اب کہتے ہیں یہ سب ہی فسانے پیار کے
کچھ حسیں لمحے بھی دل سے اب تو اتر جاتے ہیں
خواب بکھرے ہیں مرے اس دل کے ہی ویرانے میں
ہم کو تنہا کر دیا احساس کی اس دنیا نے
جیتے ہیں ہم جیسے جلتے ہوں کسی پیمانے میں
ہر قدم ٹھوکر ملی ہے، ہر جگہ دھوکا ملا
پھر بھی تیری یاد آئی ہے ہمیں زمانے میں
اپنے ہی گھر سے ملے ہیں ہم کو اتنے دکھ یہاں
بے وفا نکلے سبھی رشتے اسی خزانے میں
شمعِ امید اب تو آہستہ سے بجھنے لگی ہے
آگ سی اک لگ گئی ہے دل کے اس کاشانے میں
ہر سخن خاموش تھا اور ہر زباں تنہا ملی
غم ہی غم گونجا ہے اب تو بھیگے ہر ترانے میں
دل جسے سمجھا تھا اپنا سب ہی کچھ اے مظہرؔ
اب وہ بھی تو مل نہ سکا ہم کو کسی بہانے میں
نیک سیرت لوگ ہی دنیا میں روشن ہوتے ہیں
جس کی گفتار و عمل میں ہو مہک اخلاق کی
ایسے ہی انسان تو گویا کہ گلشن ہوتے ہیں
نرم لہجہ ہی بناتا ہے دلوں میں اپنی جگہ
میٹھے بول ہی تو ہر اک دل کا مسکن ہوتے ہیں
جن کے دامن میں چھپی ہو عجز و الفت کی ضیا
وہی تو اس دہر میں پاکیزہ دامن ہوتے ہیں
بات کرنے سے ہی کھلتا ہے کسی کا مرتبہ
لفظ ہی تو آدمی کے دل کا درپن ہوتے ہیں
جو جلاتے ہیں وفا کے دیپ ہر اک موڑ پر
وہی تو اس تیرگی میں نورِ ایمن ہوتے ہیں
تلخ باتوں سے تو بس پیدا ہوں دوریاں سدا
اچھے الفاظ ہی تو الفت کا کندن ہوتے ہیں
مظہرؔ اب اپنے سخن سے تم مہکا دو یہ جہاں
اہلِ دانش ہی تو علم و فن کا خرمن ہوتے ہیں
وقت آئے گا تو سورج کو بھی رَستہ دِکھا دیں
اَپنی ہستی کو مٹایا ہے بڑی مُشکل سے
خاک سے اُٹھیں تو دُنیا کو ہی گُلشن بنا دیں
ظُلمتِ شب سے ڈرایا نہ کرو تم ہم کو
ہم وہ جگنو ہیں جو صحرا میں بھی شَمعیں جلَا دیں
اَہلِ دُنیا ہمیں کمزور نہ سمجھیں ہرگز ہم وہ
طُوفاں ہیں جو پل بھر میں ہی بَستی مِٹا دیں
خامشی اپنی علامَت ہے بڑی طاقت کی
لَب ہلیں اپنے تو سوئے ہوئے فتنے جگا دیں
ہم نے سیکھا ہے سَدا صَبر و قناعت کرنا
وَرنہ چاہیں تو سِتاروں سے ہی مَحفل سَجا دیں
راہِ حق میں جو قدم اپنے نِکل پڑتے ہیں
پھر تو ہم کوہ و بیاباں کو بھی رَستہ دِکھا دیں
مظہرؔ اَب اپنی حقیقت کو چھُپائے رَکھنا
وقت آئے گا تو ہم سَب کو تماشا دِکھا دیں






