دفعتًا اس کا کل خیال آیا
پھر طبیعت میں کیا ابال آیا
ہر روایت سےتھی بغاوت مجھ کو
پگڑیا ں سب کی میں اچھال آیا
لوگ کتنےگنوا دیئے میں نے
جی میں رہ رہ کے یہ ملال آیا
سن بلوغت کے، اور محبت کی
روپ اس پر بہت کمال آیا
جلد بازی ڈبو گئی مجھ کو
مجھ پہ ایسے نہیں زوال آیا
یہ کمالِ خیالِ یار تھا بس
میری قامت میں جو جمال آیا
پھرجواب اس کو کیسے میں دیتا
استقامت کا جب سوال آیا
اک نظردیکھنا تھاجاکراس کو
کام یہ بھی 'کبھی' پہ ٹال آیا
پیار کی بات جب بھی کی اس سے
وہ گِلے کتنے ہی نکال آیا
وہ فقط ایک لمحہ ہی تھا خلیل
جس کا مجھ پر یہ سب وبال آیا