حقیقتوں کی گرہ جو کھولے
دل اس نظر کی تلاش میں ہے
شعور ہستی کو ڈھونڈتا ہے
صبا سحر کی تلاش میں ہے
وہ جس سے دنیا میں رونقیں تھیں
سامان سارا وہ کھو چکا ہے
پتنگوں کا شوق مر چکا ہے
شمع شرر کی تلاش میں ہے
میں ایک اجڑا ہوا چمن ہوں
گیا سمے ہوں بجھا دیا ہوں
چشم براہ ہوں کسی مکیں کا
مکین گھر کی تلاش میں ہے
تمازتوں سے جو ڈر رہے ہوں
وہ ساتھ اسکا نبھائیں کیسے
میں جا رہا ہوں ہوا کی جانب
وہ ہمسفر کی تلاش میں ہے
فضا میں آنسو بکھر رہے ہیں
خلا میں کرنیں سمٹ گئی ہیں
سسک رہے ہیں یہ چاند تارے
چکور پر کی تلاش میں ہے