اک فسانہ تھا جو تمام ہو
دل بالآخر تمہارے نام ہوا
بات ساری تری ادا کی تھی
میکدہ مفت میں بدنام ہوا
دو قدم طے کئے جو صدیوں میں
فاصلہ بڑھ کے چار گام ہوا
دن بھی شاید اسی کی بخشش تھی
جو تماشہ بروئے شام ہوا
سرد راتوں کی وہ حسیں یادیں
جس کو دیکھا اسے زکام ہوا
حسن خود کھو گیا سرابوں میں
آئینہ مورد الزام ہوا
منحصر ہے کسی کی چاہت پر
جس میں مستی اس کا جام ہوا