دل تو وحشی ہے، بھلا کب مرِے قابو آ یا
خاص کر سامنے یکدم جو کبھی تو آ یا
جستجو صرف تمہاری تھی وگرنہ اے دوست
ہم تو جس راہ چلے ، سایہء گیسو آ یا
غم کے مار ے کو کہیں بھی نہ ملی جائے پناہ
کام آ یا تو وہی درد کا پہلو آ یا
جب بھی دروازے پہ دستک کی صدا گونجی ہے
دلِ خوش فہم یہی سمجھا کہ بس تو آ یا
بار ہا مجھ پہ ترسَ کھا کے ، ہوا کا جھونکا
دشتِ تنہائی میں لیکر تری خوشبو آ یا
تو جو بچھڑا تو گلے مجھکو لگانے کے لیے
گردشِ وقت کا پھیلا ہوا بازو آ یا
اِک ہنسی وقت کے چہرے پہ سجی دیکھی ہے
جب بھی رُخسار پہ ڈھلتا ہوا آ نسو آیا
اپنا جانا اُدھر برسوں کے پسَ و پیش کے بعد
واہ کیا جانا تھا ، بس جا کے اُسے چھو آ یا
وہ گھنے بال تھے ، آ نکھیں تھیں یا چہرہ ، انور
یاد کیا دیکھ کر بنگال کا جادو آ یا