دل جو تیرا مُنتظر تھا کسی اور کو دیا گیا مُرشد
یعنی تیرا آشیانہ بھی تجھ سے چلا گیا مُرشد
پھر محض کارِ جہاں کے لیے رہا درکار ایک وجود
میں تھا عُمرِ عشق کب کی کھا گیا مُرشد
میں عکسِ مَن سے کبھی آشنہ ہی نہیں تھا
پھر ایک شخص مجھے آئینہ دکھا گیا مُرشد
کہہ دے نگاہِ حسرت سے کے میرے اب خامَ نہ لے
وہ ہر چراغِ آرزؤ میرے دل سے بُجھا گیا مُرشد
پھر مجھے زندگی نے وہ بھی دکھائے دن کے مجھے
جِن سے نَفرت تھی ان ہاتھوں میں دیا گیا مُرشد
دلِ ویراں میں مقیم فقط ایک شخص تھا
اُسے معلوم بھی تھا پھر بھی چلا گیا مُرشد
دل رؤ رہا ہے مگر وجہِ غم مجھے معلوم نہیں
وقت آج کوئی سانحہ مجھ سے چُھپا گیا مُرشد
اب غمزدہ آنکھوں سے اکثر تکتہ رہتا ہے گھر مجھے
میں سب کچھ بیماریِ غربت میں بیچ کے کھا گیا مرشد