دل سے دل مل جائے یہ تمنا کریں گے
Poet: عبدالحفیظ اثر By: عبدالحفیظ اثر, Mumbaiدل سے دل مل جائے یہ تمنا کریں گے
کوئی آساں نہیں ہے دل سے دل ہی ملیں گے
ٹوٹ جائے یہ دل نہ تو شکوہ کریں گے
کوئی نازاں اسی سے ہم بھی شاداں رہیں گے
کیوں ستائے کوئی بھی کہ یہ دل سنگ نہیں ہے
ورنہ آنکھوں سے یوں ہی اَشْکِ خُونی بہیں گے
کوئی حسرت رہے گی تو یہی بس رہے گی
تم ہماری سنو گے ہم تمہاری سنیں گے
تم ہمارے رہو گے ہم تمہارے رہیں گے
کچھ کہیں گے کبھی تو بس تمہاری کہیں گے
جو وفا بھی کریں گے تو تمہیں سے کریں گے
بے وفائی کا کوئی نہ تو دم بھی بھریں گے
کوئی الفت رہے گی تو تمہیں سے رہے گی
نہ تصور کسی کا بس اسی سے بچیں گے
یہ ہماری تو یوں ہی بےقراری رہے گی
بس ہمیشہ اسی میں ہم تو فرحاں دکھیں گے
کوئی شکوہ نہ گا نہ شکایت رہے گی
کہ کبھی ضبط سے ہم نہ تو پیچھے ہٹیں گے
یہ تو اپنا کبھی بھی عَہْد پختہ رہے گا
نہ کمی ہوگی کوئی بس اسی پر جمیں گے
یہ سدا آرزو بس اثر کی رہے گی
جان ہو تم پہ فدا بس تمہیں پہ مریں گے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






