دل لگی دوش بن گئی درد کی تقدیر یہ کیسی
میرا مجھ سے ملن نہیں ہاتھ میں لکیر یہ کیسی
وہ تو اپنے وجود کا ذخیرہ ڈھونڈنے نکلے
جو جنم سے مردہ ہو وہ قوم کثیر یہ کیسی
جو ملی محبتیں سبھی قلیل مقدار میں
ایسے ہی مقدر کی پھر تحریر یہ کیسی
نہ قید، نہ آغوش، نہ پابندی کہیں
مگر دل ہر جگہ یونہی اسیر یہ کیسی
میں نے ہر دیئا باد سے چھپا کر رکھا
پھر چلی ہے آندھیوں کی بھیڑ یہ کیسی
کہتے ہیں جوش دل کے روایتوں سے آزاد ہیں
تو میری حیات کے گرد بندھی زنجیز یہ کیسی