مل رہے ہیں زخم کب شفا ملتی ہے
ہاں یہاں دل والوں کو سزا ملتی ہے
ہر کوئی تو ہے محوِ تماشہ یہاں
تڑپنے والوں کو کب دوا ملتی ہے
دیوانہ پاگل محبت سے ملے نام
ہر موڑ پر نئی ہی اب صدا ملتی ہے
ہم وفا کر کہ بھی تو خار ہو گئے
وہ دیکھ بے وفا کو وفا ملتی ہے
بے قدر ہیں جو وہ پاگئےہیں سبھی
تقدیر بھی قدر کو خفا ملتی ہے
زندگی کے ستاتے ہوئے بھی مجھے
ہر چیز رُوٹھی ہوئی سدا ملتی ہے
گلہ نہیں ہے ساجد اب کسی سے مجھے
دل لگی میں درد کی عطا ملتی ہے