دل لے کے بھول گئے اب جان مانگتے ہیں
بچا ہے جو دل میں جینے کا ارمان مانگتے ہیں
کرکے قتل وفائوں کا بے درد صنم اب
خاموش رہنے کی قسم مجھ سے زبان مانگتے ہیں
بھلا کے بیٹھے ہیں میری محبتوں کے تمام تحائف
اور بار بار مجھ سے اپنا سامان مانگتے ہیں
دیئے پھول مسکراہٹ کے تمام اُسے مگر
اب وہ سارے کا سارا گلستان مانگتے ہیں
چھین لی میری ہر خوشی محبت کے داعو سے
اب میری انجان بن کے وہ پہچان مانگتے ہیں
کیھچ لی زمین میرے قدموں کے نیچے سے نہال
اور اب وہ مجھ سے سر کا آسمان مانگتے ہیں