دل میں آج بھی یہی گمان رہتا ہے
وہ مری خاطر ہی پریشان رہتا ہے
دی تو ہے اُس نے مجھے غمِ برسات
اُس کی نظروں میں طوفان رہتا ہے
جب سے وہ محبت کے دیئے بجھا کے گیا
پھر بھی اک روشنائی کا امکان رہتا ہے
جو چلا گیا رشتوں کی دوڑ توڑ کے
جیسے مری رگوں میں وہ بن کے جان رہتا ہے
اِک پھول کو چُرا کے اِک چور لے گیا
بے چارہ غم زدہ اُس کا باغبان رہتا ہے
اِک مسافر آیا اُس کے شہر سے کل
بتایا اُس نے وہ بھی اب مری طرح ویران رہتا ہے
جب تھا میں بے گھر اُس نے دل میں جگہ دی
ہر ستم بھول کے یاد یہی احسان رہتا ہے
مرے شہر سے اِک شخص کیا گیا نہال جی
سارے کا سارا شہر اب سنسان رہتا ہے