دل میں اب یاد محبت کو سجانے سے رہی
اس کی تصویر کو آنکھوں سے لگانے سے رہی
پھر سے آیا ہے خفا رہنے کا موسم لیکن
پیار تو پیار ہے اس کو بھی نبھانے سے رہی
دل کی تنہائی کے کمرے میں اٹھے درد اگر
زندگی پیار کا نغمہ ہے یہ گانے سے رہی
اس کی عادت ہے کہ ملتے ہی جدا ہو جانا
اس کی رفتار سے بس ہاتھ ملانے سے رہی
دن تو کاٹوں گی جدائی کے کسی دشت کے ساتھ
میری راتوں میں مجھے ملنے تو آنے سے رہی
رات کے پچھلے پہر وشمہ اگر درد بڑھے
گیلا موسم ہے محبت کو جلانے سے رہی