جب سے تیری صورت دل میں چھپا رکھی ہے
کلیوں نے اک بزم پیار کی سجا رکھی ہے
دل تڑپتا رہے عشق میں تیرے
دلِ پُر درد کی اس میں دوا رکھی ہے
دل جلتا رہا میں سُلگتا رہا
اک شمع تیری یاد کی جلا رکھی ہے
آج شبَ تنہائی میں اک تیری جُدائی میں
انجمن تیرے پیار کی ہم نے سجا رکھی ہے
لگے کسی کی نہ ہمیں نظر نہ لوں مول کوئی خطر
جبھی تو محبت تیری دل میں چھپا رکھی ہے
نہ دوں گا کبھی دغا کروں گا صدا وفا
قسم اس کی بھی ہم نے کھا رکھی ہے
دے جو تجھے تکلیف نہیں وہ ہمیں عزیز
اپنی بزم سے ہر وہ چیز ہم نے ہٹا رکھی ہے
کیا تو نے ہے جانا ہے عاجز تیرا دیوانہ
جبھی تو ہر چیز اپنی تجھ پہ لُٹا رکھی ہے