دل میں ہم پیار کی شمع کو جلا دیتے ہیں
Poet: Dr.Zahid Sheikh By: Dr.Zahid Sheikh, Lahore,Pakistanشعلے نفرت کے محبت سے بجھا دیتے ہیں
دل میں ہم پیار کی شمع کو جلا دیتے ہیں
ہم نے سیکھا ہے ہر اک شخص سے الفت کرنا
کوئی دشمن بھی اگر ہو تو محبت کرنا
مانتے ہیں کہ عبادت ہو خدا کی ہر دم
پیار انساں سے کرو پھر ہی عبادت کرنا
ساری دنیا کو یہ پیغام وفا دیتے ہیں
دل میں ہم پیار کی شمع کو جلا دیتے ہیں
مفلسوں کے لیے آؤ سبھی سوچیں مل کر
بے سہاروں کو سہارہ چلو سب دیں مل کر
ظلم مجبور پہ اب کوئی نہ کرنے پائے
دہر میں ظلم کو ہر طرح سے روکیں مل کر
لوگ مفلس کو بلا وجہ رلا دیتے ہیں
دل میں ہم پیار کی شمع کو جلا دیتے ہیں
بستیاں دیکھو تو تقدیر کے ماروں کی کبھی
سسکیاں جا کے ذرا سن لو بیماروں کی کبھی
بک رہی ہیں گلی کوچوں میں دوشیزائیں کئی
جھلکیاں دیکھو تو “ تاریک ستاروں “ کی کبھی
رو کے یہ لوگ یونہی زیست بیتا دیتے ہیں
دل میں ہم پیار کی شمع کو جلا دیتے ہیں
حکمرانوں کو تو ہوتا نہیں احساس کوئی
ان لٹیروں سے بھلائی کی نہیں آس کوئی
کوئی مخلص نہ ملا ملک کی خاطر اب تک
ہم کو تو آج تلک آیا نہیں راس کوئی
لوٹ کر ملک کو قرضوں میں پھنسا دیتے ہیں
دل میں ہم پیار کی شمع کو جلا دیتے ہیں
شعلے نفرت کے محبت سے بجھا دیتے ہیں
دل میں ہم پیار کی شمع کو جلا دیتے ہیں
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






