دل تو ناداں ہے جو عشق لڑابیٹھا یے
تجھ کو خود میں بسا کر خود کو بھلا بیٹھا ہے
تجھ سے عشق کیا تو صنم جان گیا
کہ اس آگ میں خود کو جلا بیٹھا ہے
تجھ کو تکنے کی خوایش آتی پل پل
وہ تمنا اب بستر مرگ پہ سلا بیٹھا یے
تیری ہاں،نہ، نے اس قدر مجبور کیا
کہ اب کسی اور سے انس آنکھ لڑا بیٹھا ہے