بات اتنی ہے کہ دل درد سے بھر جائے گا
وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا
خاک بھی اس کی نہ مل پائے جو جاں سے گزرے
دیکھتے دیکھتے ہر آدمی مر جائے گا
کارواں لاکھ سہی چلنا ہے اپنے پائوں پر
ایک بس ساتھ ہے خود کا تو جدھر جائے گا
جیب خالی ہے مگر خواب ہیں آنکھوں میں بھرے
وہ ترے شہر میں آئے گا تو ڈر جائے گا
دشت بہ دشت بھٹکنا ہے مقدر اس کا
جو ترے عشق کی سرحد سے گزر جائے گا
دل وہ بچہ ہے جو ہر وقت توجہ مانگے
پیار سے جو بھی بلائے گا ادھر جائے گا
پیاسے صحرا کی طرح مٹی اڑاتا ہے وہ
ابر برسے بنا گزرا تو وہ مر جائے گا