دل کا رونا تو اختیار میں نہیں
مگر اشکوں کا بہنا بیکار میں نہیں
غم کی ھزارہا سورتیں ہیں صاحب۔
کیا دل مبتلا غم روزگار میں نہیں؟
بارہا بار توڑا ھے دل اس نے اپنا۔
ہنوز کوئی فائدہ اب اعتبار میں نہیں
زمانہ خاک کرے گا پھر پرواہ اپنی۔
جب زمانہ خود کے اختیار میں نہیں
جان نکلی جاتی ھے نام لیتے ان کا
یہ تو کسی کے بس اختیار میں نہیں
کیوں دبے لفظوں شکوہ کروں تم سے؟
کیا اتنا بھی دل کو حق پیار میں نہیں
دل فھوٹ کر روتا ھے غم میں تیرے
بس آواز کا ہونا تیرے دربار میں نہیں
یوں تو ھزارہا گل ہیں گلستان میں اسد
مگر تمہارے جیسا کوئی گلذار میں نہیں