دل کبھی صورت حال سے باہر نہ گیا
میں محبت میں بھی اوقات سے باہر نہ گیا
اک تو ہے کہ جہاں بھر سے تعلق تیرا
اک میں ہوں کہ تیری ذات سے باہر نہ گیا
سوچ کوئی نا تیری سوچ سے ہٹ کر سوچی
تذکرہ کوئی بھی تیری بات سے باہر نہ گیا
مرحلہ تجھ سے جدائی کا بھی آ پہنچا، مگر
میں ابھی پہلی ملاقات سے باہر نہ گیا
آؤ سورج کو بتاتے ہیں تمازت کیا ہے
چاند کیا جانے، وہ خود رات سے باہر نہ گیا