وحشتوں کا
سایا دے گئے ہو
مجھے مرہم کے بجائے
نئے زخم دے گئے ہو
یہ کیسا پیار کا جام ہیں
جس میں تم نے نفرتوں
کا زہر بھر دیا ہے اور
مجھے اسے پینے کا
بھی حکم دے گئے ہو
کاش ! کہ میں نے تم پر
یوں اوعتبار نا کیا ہوتا
تبی تو آج تم مجھے
دغا دے گئے ہو
کیا تھا آخر جرم میرا ؟
جو تم مجھے ایسی
سزا دے گئے ہو
اگر تم نے کرنا ہی
یہ سب تھا تو کیوں مجھے
تم ایسے ارمان دے گئے ہو
تمہیں بھول جانا اب تو
مکمن نہیں ہیں جاناں
تم خودی آ جاوں کہ اس
دل کو تم خواب دے گئے ہو