دل کو سوز نہ دے یا اِسے پتھر کر دے
ضیا نہیں تو ظلمت ہی میرا مقدر کر دے
خاک ِرہگزر میں مجھے خاکستر کر دے
یا میری منزل کو ہی میری خبر کر دے
میں تیرے دام ِخیال میں ہی محصور رہوں
تو اپنی اداؤں سے آج ایسا سحر کر دے
رخ ِمضطرب کو تبسم کا سبب دے دے
یا میرے قطرہ آنسو کو سمندر کر دے
میرا سفینہ حسار میں اپنے لے کر چلیں
بھنور کی موجوں کو میرا رہبر کر دے
تو اپنی شان ِبے نیازی کے صدقے مولا
میرے کردار کو گفتار سے بہتر کردے