لگتا ہے کوئی ساری خدائی سے پیارا مجھے
نام جس کا محبت میں خدا رکھا ہے
تم جھانک کر دیکھو تو سہی میری جان
کشکولِ محبت میں نذرانہِ وفا رکھا ہے
عشق کی ضیا پھیل رہی کچھ یوں دوستوں
جیسے دل میں شمع محبت کو جلا رکھا ہے
یہ تمہاری کیسی چشمِ محبت کا فیض ہے ساقی
جس نے سمندر میں بھی مجھے پیاسا رکھا ہے
لفظوں کی خوشبو سے مہکے فضا کیوں نہ
دل کی کتاب میں اک پھول چھپا رکھا ہے