دل کے رشتے یار کبھی آسان نہیں بنتے
Poet: اسد رضا By: ASAD, MPK دل کے رشتے یار کبھی آسان نہیں بنتے
ٹوٹ جائیں ایکبار پھر میری جان نہیں بنتے
د غا دے کر پچھتا نا پھر یار کس لیے؟
جبکہ معلوم ھے سب مہربان نہیں بنتے۔
صاف کہہ دیں اگر جرعت نہیں رکھتے۔
مگر جا نے ان جانے کبھی ناداں نہیں بنتے۔
دور کی نظر کیوں دوڑاتے نہیں صا حب؟
کہ پیار میں سب تو مہربان نہیں بنتے۔
اس دل کی لگی کا آہ ! آ زار برا ھے۔
غم کے مارے کبھی یک جان نہیں بنتے۔
گو لاکھ کریں کوشش تو ڑ نبھا نے کی۔
خود غرض کبھی گوہر مر جان نہیں بنتے۔
دیکھا ھے ہم نے بار ہا زمانے والوں کو۔
وہ آدمی تو بنتے ہیں مگر انسان نہیں بنتے۔
بز دلی کی بھی کوئی حد ہوتی ھے صا حب!۔
عشق والے کبھی ڈر کر جوا لاں نہیں بنتے۔
کیوں دیکھتے ہیں وہ کھلی آنکھ سے سپنے ؟
خواب کبھی حقیقت مری جان نہیں بنتے۔
پیار مین خود غرضی کبھی چلتی نہیں صاحب۔
مطلب کے ساتھی کبھی قدرداں نہیں بنتے۔
اسد اپنے آپ ہم ڈھونڈھتے ہیں اپنی منزل۔
ہم کسی پر بوجھ کوئی میری جان نہیں بنتے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






