مجھے جانے تیرے نسب سے
مجھے ایسا کوئی خطاب دو
پڑھنے سے جو نہ ختم ہو
مجھے ایسا کوئی نصاب دو
جو اترے مجھ میں روح تک
مجھے ایسے کچھ اسباب دو
جو ہر پل رہے مجھ پر سایہ فگن
مجھے ایسا کوئی سحاب دو
جو میری سیرت کو نکھار دے
وہ اپنے پیار کا حسن وجمال دو
پھر نہ اٹھے ذہن میں کوئی سوال
مجھے ایسا کوئی جواب دو
نا اترے میرے دل سے تیرا عشق
دم مرگ تک اپنے عشق کا شباب دو
شب و روز گزرے تیری یاد میں
مجھے عاشقی کے آداب دو
جو نڈر کردے مجھے زمانے سے
مجھے ایسا کوئی انقلاب دو