دن بدن اُس کی جفائیں بڑھ رہی تھی
دن بدن میری وفائیں مر رہی تھی
لوگوں کے کہنے پے آگ تو لگا دی اُس نے
نا سمجھی کہ وہ کیا کر رہی تھی
اپنا ہی آشیانہ اُجاڑ لیا اُس نے
ا ب منظر دیکھ کے وہ ڈر رہی تھی
جلے ہوئے گھر کی راکھ پے بیھٹی
را رہی تھی اور ہائیں بھر رہی تھی
ہوش آیا تب جب کچھ بھی نہ بچا نہال
پھر دیوانوں کے جیسے خود سے لڑ رہی تھی
دن بدن اُس کی جفائیں بڑھ رہی تھی
دن بدن میری وفائیں مر رہی تھی