دن ڈھل چُکا اُداس رات کا پہرہ ہے
چند حِسین یادوں نے ہم کو آن گھیرا ہے
ہوا بھی چلتی ہے زرا تھم تھم کر آنگن میں میرے
اُڑ نہ جائے کہیں خزاں رسیدہ پتوں کا جو ذخیرہ ہے
وقت بھی کاٹے نہیں کٹتا تنہائی کا اب تو عابد
جیسے زندگی کے سفر میں کوئی ویران جزیرہ ہے