دنیا کے جھمیلے میں ملاقات ، بری بات
مانگا ہے نگاہوں سے مرا ہاتھ ، بری بات
گہرا ہوا جاتا ہے یہاں شام کا سایہ
کٹ جائے نہ پھر ایک یہاں رات ، بری بات
جب فون پہ دیتے ہو مجھے جھوٹے دلاسے
لگتی ہے مجھے آپ کی ہر بات ، بری بات
ٹھہرے ہوئے بادل ہیں مری آنکھ کی چھت پر
اب ڈر ہے کہ ہو جائے نہ برسات ، بری بات
پھر ساری عمر ہم بھی گزاریں گے اکیلے
گر ہم کو ملا اب نہ ترا ساتھ ، بری بات
مغرب کی یہ تقلید کہیں مار نہ ڈالے
آنکھوں سے لگاؤ نہ یہاں گھات ، بری بات
وشمہ وہ محبت کی عبادت میں تو خوش ہے
لگتی ہے بری اس کو مری ذات ، بری بات