دو قدم ہی تو ساتھ چلتا

Poet: مرید باقر انصاری By: مرید باقر انصاری, Karachi

دو قدم ہی تو ساتھ چلتا ہے
جانے کیوں سارا شہر جلتا ہے

کیوں نہ ہو سارا شہر ہی گھائل
بن سنور کے جو وہ نکلتا ہے

کالا تِل مجھ کو تُو نہیں بھاتا
اس کے چہرے پہ کیوں مچلتا ہے

ڈھلتے سورج سے کوئ پوچھے تو
کیوں مرے ساتھ ہی وہ ڈھلتا ہے

کیا عجب سانپ ہے جو انساں کی
آستینوں میں آ کے پلتا ہے

کتنا بےبس ہے میرا دشمن بھی
مجھ کو دیکھے تو ہاتھ ملتا ہے

روز امیروں کے گھر چراغوں میں
کیوں غریبوں کا خوں پگھلتا ہے

یہ غلامی کا دؤر ہے باقرؔ
اب بھلا کون سچ اگلتا ہے

Rate it:
Views: 368
01 Aug, 2016