دو قدم ہی تو ساتھ چلتا ہے
جانے کیوں سارا شہر جلتا ہے
کیوں نہ ہو سارا شہر ہی گھائل
بن سنور کے جو وہ نکلتا ہے
کالا تِل مجھ کو تُو نہیں بھاتا
اس کے چہرے پہ کیوں مچلتا ہے
ڈھلتے سورج سے کوئ پوچھے تو
کیوں مرے ساتھ ہی وہ ڈھلتا ہے
کیا عجب سانپ ہے جو انساں کی
آستینوں میں آ کے پلتا ہے
کتنا بےبس ہے میرا دشمن بھی
مجھ کو دیکھے تو ہاتھ ملتا ہے
روز امیروں کے گھر چراغوں میں
کیوں غریبوں کا خوں پگھلتا ہے
یہ غلامی کا دؤر ہے باقرؔ
اب بھلا کون سچ اگلتا ہے