(61)
آیا ہی تھا میرے لب پر بے وفا کا نام
کچھ دوستوں نے ہاتھ پتھر اُٹھا لیے
(62)
وہ پتھر تھا میں شیشہ تھا نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلا
اُس نے ٹھوکر لگانی تھی مجھے ٹوٹ جانا تھا
(63)
دسمبر میں کہا تھا کہ واپس لوٹ آوں گا
ابھی تک تم نہیں لوٹے دسمبر لوٹ آیا ہے
(64)
عشق آنکھوں میں میری دیکھ کر روتے کیوں ہو
دل بھر آتا ہے تو پھر مجھ کو رولاتے کیوں ہو
(65)
آپ کے انتظار میں سجتی سنورتی رہتی ہے یہ پگلی
آپ کو یاد نہ کروں دن میں ایسی کوئی گھڑی نہیں جاتی
(66)
اپنے ساۓ سے بھی اشکوں کو چھپا کر رونا
جب بھی رونا ہو چراغوں کو بجھا کر رونا
(67)
مسافر ہوں میں بھی مسافر ہو تم بھی
پھر کہیں کسی موڑ پر ملاقات ہو گی
(68)
اب بھی اس کے خط آتے ہیں
بھیگے بھیگے اور بھینے جادو میں لپٹے
(69)
آخری خط میں اُس نے لکھا تھا
کہ مسعود تم مجھے یاد آتے ہو
(70)
ہاں یہ تو سچ ہے ہم نے تیری قدر کی
مگر تو اس توجہ کے قابل ہی نہیں تھا