دور چلے آئے اپنوں سے ، خاک ہماری عید ہوئی
مل کر چاند کو دیکھا نہ تو اِک دوُجے کی دید ہوئی
حالِ غم کہہ دینا سب سے اتنا بھی آسان نہ تھا
آج غنیمت مجھ کو اپنے اشکوں کی تمہید ہوئی
تو تقدیر بدل دیتا ہے اک ہی لمحے میں مولا
تیری نظر کرم سے سب کی بار آور امید ہوئی
میرے اندر بیٹھا کوئی دھیرج مجھ کو دیتا تھا
دنیا کی نیرنگی سے میں جب جب نا اُمید ہوئی
شاید یہ اعجاز تھا میرے جذبوں کی سچائی کا
اُن کی چاہت اِک ذرہ تھی لیکن اب خورشید ہوئی
برسوں سے بس مجھ کو تیری ایک جھلک کی حسرت تھی
چمکا آج مقدر میرا مجھ کو تیری دید ہوئی
کوئی مٹتا ہے تو اور جنم لے لیتا ہے
لاکھوں پھول مٹے تب جا کر خوشبو آج کشید ہوئی
اِس سے بڑھ کر اور سِتم کیا ہوگا دنیا میں عذراؔ
تڑپوں پر نہ آ نسو چھلکیں مجھ کو یہ تاکید ہوئی