دوستوں کی ہم دوستی کو نہ سمجھے
کبھی وہ نہ سمجھے، کبھی ہم نہ سمجھے
اُسے میں نے چاہا دل و جاں سے بڑھ کر
اندازِ محبت مگر وہ نہ سمجھے
جلایا نشیمن ، اُجاڑا چمن بھی
بیتابیِ دل کو مگر وہ نہ سمجھے
ہر اِک کے دُکھوں کو رہا بانٹتا وہ
اوروں کو تو سمجھے ہم ہی کو نہ سمجھے
مانو؎ تو بھی یہ کیا کہ رہا ہے
جہاں کو تو چھوڑو تمہیں ہم نہ سمجھے