نفرتوں کی ویرانی میں چاہت کی بزم کیا ہے
زمانے کو دیکھاؤں گا محبت کا عزم کیا ہے
رہو آپس میں مل جل کر یہ مذہب کی باتیں ہیں
زمانے نے کیا جُدا زمانے کا دھرم کیا ہے
محبت ہی محبت ہے میرے دل کی ویرانی میں
کوئی پوچھے ذرا ان سے بھلا میرا جرم کیا ہے
بیگانہ تو بیگانہ کوئی اپنا بھی نہیں اپنا
سوالی پہ محبت کے یہاں یا رب یہ ظلم کیا ہے
محبتوں کے گلستان میں نفرتوں کے کانٹے ہیں
یہاں بہار کے موسم میں یارب یہ الم کیا ہے
کٹتے ہیں شجر دیکھو جلتے ہیں آشیانے بھی
یہ آزادی کی فضاؤں میں لوگوں پہ سِتم کیا ہے
دولت کا زمانہ ہے، ساجد الفت تو بہانہ یے
خود غرص اِس دُنیا میں رشتوں کا بھرم کیا ہے