دِل میں محسوس ہوتا ہے وجود کسی کا
لگتا ہے کسی مکیں کا مکاں ہوا ہے دِل
جب سے دیکھی ہے وہ قاتل چشمِ یار
پاس میرے دو پل کا مہماں ہوا ہے دِل
دِل میں چھپا کے دیکھتا ہوں ماہ جبیں کو
قریب اُس کے ہو کر بھی انجاں ہوا ہے دل
زلف سلجھی تو وجود رات کا بن گیا
جو زلف الجھی تو پریشاں ہوا ہے دل
اُن سے مل کے ہوئی ابتدائ حیات کی
اِک اور عشق کی داستاں ہوا ہے دل
وہ بے خبر ہیں جوہؔر کے حالِ دِل سے
جس خوش نہاد کا رطب اللساں ہوا ہے دل