دھراؤ اس مزاج کو کہ ہمیشہ نہ دکھ کی بات ہو
آؤ مل کر سوچیں کہ کیوں نہ سکھ کی بات ہو
بڑھاؤ گلستان چلمن یہاں ویرانیاں تو بہت ہیں
تباہی کی تاؤ میں پھر کیوں جوکھ کی بات ہو
کوئی قید شرط نہیں کہ استقلال سے مکر بیٹھیں
اُس کو دو مرتبہ، جو شرف پکھ کی بات ہو
تردید اعتراض ہم چھپا بھی کہاں سکیں گے
دھڑکنوں کو زباں دو کہ یہاں مکھ کی بات ہو
میری خودی بڑہ گئی خطاؤن کے راستے مگر
لوٹ جائیں گے قدم گر اَخ کی بات ہو
عروج شدت تو اور بھی ہیں رعنایاں سنتوشؔ
کرو تجویز معمول کہ اپنے رُخ کی بات ہو