دھرتی سے آ کاش تلک سب تنہا تنہا لگتا ہے
جِس آ نگن میں پھول نہ ہوں وہ آ نگن سوُنا لگتا ہے
سوُکھے پھول اور بند کتابیں کیا منظر کرتی ہیں پیش
سارے شہر پہ جیسے اِک آسیب کا سایہ لگتا ہے
کتنا اچھا ہوتا دِل ارمانوں سے خالی ہوتا
دِل میں کتنے ارمانوں کا روز تماشہ لگتا ہے
کوئی بھی ہو رنگ بیاں کا کتنی ہی گلکاری ہو
ہر اِک باب کتابِ دِل کا سادہ سادہ لگتا ہے
یہ بھی شاید اپنے رِشتے کا ہی ایک تقاضہ ہو
تیرا ہر اِک کام مجھے خود کرنا اچھا لگتا ہے
ہو جاتا ہے ہر اِک منظر روشن تیرے ہونے سے
توُ نہ ہو تو ہر اِک منظر پھیکا پھیکا لگتا ہے
حسن نکھر جاتا ہے شب کا جھلمل جھلمل تاروں سے
شب کے چہرے پر تاروں کا سہرا اچھا لگتا ہے
آج نئی کیا بات ہوئی ہے عذراؔ کیا معلوم مجھے
آج تو موسم کا چہرا بھی نِکھرا نِکھرا لگتا ہے