دھوپ کے تاؤ سے سحر کو جانا
تمہیں کیسا لگا تھا وہ بہر کو جانا
نگری نگری دھواں اٹھتے رہے
اب کہ آگ لگی ہے نہ شہر کو جانا
عالم کی صدا پہلے پہنچی شاید
مجھے تقدیر نے کہا ذرا ٹھہر کے جانا
تعظیم کی غالبی اب بھی کہتی ہے کہ
ہر روز بندگی لیئے بت گھر کو جانا؟
ان اشکوں سے ارضی آباد کروں گا
پھر کیوں نہ پڑے گا بنجر کو جانا
تسکین تک بھی نہیں مل سکا
ظالم کو راس آگیا مؤثر کو جانا
یوں شب ڈھلتی ہے تیری یاد لیئے
فکر سے لگتا ہے پھر عمر کو جانا