دھڑکنیں محبت کی دل نشین خاموشی
مرحبا اے ہنگامو آفرین خاموشی
کج بیاں ٹھکانوں سے دور اک خرابے میں
گھر بنا کے رہتی ہے اک ذہین خاموشی
شام ہے یہ وعدے کی عشق کے ارادے کی
اک جواں سا سناٹا اک حسین خاموشی
سامنے جو آ جاؤں کیفیت حیا کی پھر
ٹانک دے گی پلکوں پر نازنین خاموشی
ٹوٹ کر جو بکھروں گا دیکھ لے گی دنیا پھر
اک مکاں محبت کا اور مکین خاموشی
گفتگو تو تجھ سے تھی روبرو میں خود سے تھا
اک فلک سا ہنگامہ اک زمین خاموشی
بے وفا خیالوں سے زخم کے حوالوں سے
کیا سوال کرتی پھر وہ حسین خاموشی