دیا ہے جس نے وہاں تک خیال جانے دو
مرے خیال میں ہے وہ کمال جانے دو
ہوں جتنی آج میں تنہا کبھی یہ حال نہ تھا
تھی زندگی تو ہمیشہ وبال جانے دو
یہ سال بھی تو مسرت کا کوئی سال نہیں
گزر گئے ہیں سب ہی زوال جانے دو
یہ فاصلے کبھی پل بھر میں مٹ بھی سکتے تھے
قریب آنا ترے یوں محال جانے دو
ہر ایک کرتا ہے احوال پہ مرے افسوس
غمِ فراق سے میں ایسے حال جانے دو
تجھے بھی رنج جو پہنچا کسی سے خوب ہوا
اذیت اور دلِ پر ملال جانے دو
غموں کے بحر میں اک موج بن کے بہتی ناز
تری جدائی کا غم کا ہے سال جانے دو