دیار خواب میں کوشش ہے پھر نہیں آیا
بنا رہی ہوں میں تصویر پر نہیں آیا
ابھی تو صرف بگولے اٹھے خیالوں میں
ابھی سے رکنے لگی نبض اثر نہیں آیا
شعاعیں دینے لگے ایسا کے اندھیرے بھی
نئی ادا ہے چراغوں میں بھر نہیں آیا
محاذ میں نے ہی اپنے خلاف کھولا ہے
کہ آ گئی ہے گھڑی خود کا گھر نہیں آیا
ذرا سی ٹھیس سے آنسو نکل پڑے ورنہ
یہ کوئی رسم نہیں ہےادھر نہیں آیا
جنوں کی راہ پہ چلتی ہوں تم کو حیرت ہے
مری خرد کا بھلا کا نظر نہیں آیا
ہر ایک چیز سے غافل رہی ہوں دنیا میں
ترے خیال میں اپنی خبر نہیں آیا
ہے زندگی تو فقط اک عذاب ہی وشمہ
نہ روزگار ہے اور کوئی گھر نہیں آیا