اک آس لگاۓ بیٹھے ہیں تیرا دیدار کبھی تو ہو گا
تیرے چاہنے والوں میں میرا شمار کبھی تو ہو گا
چاہت کے سلسلے اور بھی ہو جایئں گے حسین
دل میں آپ کے میری محبت کا غبار کبھی تو ہو گا
اپنی سوچوں میں مجھے قید کر لو اتنا قریب کر لو
رلفیں بکھیرو میرے شانوں پر زلفوں کا اسیر کر لو
صورت دکھا کر اپنے حُسن کا مجھے دل گیر کر لو
تیرے ہونٹوں سے میری چاہت کا اقرار کبھی تو ہو گا
میرے آنگن میں آمد سے روشنی بکھیر تو سہی
میری تنہائی سمیٹ پیار کی بوند دے تو سہی
ہونٹوں کی پیاس بجھا جامِ اُلفت آنکھوں سے پلا تو سہی
تیری نگاہوں سے چاہت کا گمان کبھی تو ہوگا
تیرے ملنے کی آس میں گائل سا ہو گیا ہوں
آنکھیں تیرے انتطار میں کب سے اشکبار ہیں
چین اُڑ گیا ہے قسمت تو جیسے روٹھ گئی ہو مجھ سے
ذوالفقار کے لیئے تیرا بھی دل بے قرار کبھی تو ہو گا