دیوار انا کی قائم تھی مرے ذات سے آگے
بات بڑھ نہ سکی یوں رسم ملاقات سے آگے
خاک ر اہ عشق کی چھانی ہے صبح و شام
تھی عشق کی اُونچی منزل اوقات سے آگے
اشکوں میں چمک تو تھی ستاروں کی مانند
ٹپکا تو ملا خاک میں اظہار جذبات سے آگے
کہتے ہیں نشہ چشم تصور سے ممکن ہے
چشم تصور نہ ملی وہم و خیالات سے آگے
ہے خوف وصل کے لمحات کے خیال سے
سر نگوں نہ مرا عشق ہو اوقات سے آگے